(یہ رپورٹ بی بی سی اردو، اور محمد کاظم کے شکریہ کے ساتھ یہاں شائع کی جا رہی ہے)
’میرے بیٹے نے راستے میں مجھے بتایا کہ اُس نے روزہ رکھا ہوا ہے، اُس لیے اس کی افطاری کا اچھا سا بندوبست کیا جائے۔ بیٹے کی خواہش پر ہم نے اپنی استطاعت کے مطابق اچھے پکوان تو تیار کروائے لیکن وہ انھیں کھانے کے لیے کبھی گھر نہیں پہنچ سکا۔‘
یہ کہنا ہے بلوچستان کے ضلع قلات سے تعلق رکھنے والے محمد اسحاق لاشاری کا جن کے بیٹے فیاض لاشاری کو مبینہ طور پر لاپتہ کیا گیا ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے محمد اسحاق اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکے اور گلوگیر آواز میں بتایا کہ امتحان دینے کے بعد اُن کا بیٹا اسلام آباد سے عید منانے کے لیے گھر آ رہا تھا۔ ’ایسے میں ہم عید کیسے منائیں جب میرا لخت جگر لاپتہ ہے۔ اور یہ بھی علم نہیں کہ وہ کہاں ہے اور کس حال میں ہے؟‘
فیاض لاشاری کون ہیں؟
فیاض لاشاری کا تعلق بلوچستان کے ضلع قلات سے ہے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم قلات سے حاصل کی اور اس کے بعد یونیورسٹی آف بلوچستان سے فزیوتھراپی کی ڈگری لی۔ وہ اس وقت اسلام آباد میں ہیلتھ سروسز اکیڈمی سے پبلک ہیلتھ سروسز میں ماسٹرز کر رہے ہیں۔
ان کے والد کے مطابق سات بھائیوں میں ان کا نمبر چھٹا ہے۔ ان کے والد نے بتایا کہ فیاض شادی شدہ ہیں اور ان کی شادی تقریباً ایک سال قبل ہوئی تھی۔
فیاض لاشاری کے والد محمد اسحاق خود بھی پولیس کے ریٹائرڈ ملازم ہیں اور انھیں ریٹائرمنٹ کے وقت جو پیسے ملے وہ انھوں نے فیاض اور دوسرے بچوں کی تعلیم پر خرچ کر دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ تاحال فیاض ملازمت نہیں کر رہے ہیں اور اسلام آباد میں ان کی تعلیم کے اخراجات بھی وہ ہی برداشت کرتے ہیں۔
محمد اسحاق کے مطابق اسلام آباد میں موجود اپنے بیٹے کے ساتھ جب ان کا آخری رابطہ ہوا تو انھوں نے بتایا کہ 14 اپریل کو ان کے دوسرے سمسٹر کا آخری پرچہ ہے جسے دینے کے بعد وہ کوئتہ کے لیے روانہ ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ 15 اپریل کو علی الصبح کرائے کی کار میں دو ساتھیوں کے ساتھ صبح ساڑھے پانچ بجے کے قریب کوئٹہ کے لیے اسلام آباد سے روانہ ہوئے۔ ’ان کے ساتھ سفر کرنے والوں میں ان کے کلاس فیلو محمد فراز کے علاوہ ڈاکٹر نبی داد بگٹی اور گاڑی کے ڈرائیور شامل تھے۔‘
محمد اسحاق نے بتایا کہ فیاض لاشاری کے ساتھ سفر کرنے والوں نے بتایا کہ جب اُن کی گاڑی شام کو ساڑھے چار سے پانچ بجے کے درمیان ضلع پشین کے علاقے زیارت کراس پر پہنچی تو تین گاڑیاں تیزی کے ساتھ آ کر ان کی گاڑی کے سامنے رُکیں۔ ’ان گاڑیوں میں سے تقریباً 15 افراد اترے جن میں سے بعض مسلح تھے۔ اور ان میں سے چند افراد وردی میں ملبوس تھے اور بعض سادہ کپڑوں میں۔‘ محمد اسحاق نے دعویٰ کیا کہ ’نامعلوم افراد نے گاڑی کے قریب آ کر سب سے شناختی کارڈ طلب کیے اور شناختی کارڈ دیکھنے کے بعد انھوں نے کار ڈرائیور اور سرفراز احمد کو چھوڑ دیا جبکہ میرے بیٹے فیاض اور ڈاکٹر نبی داد بگٹی کار سے اتار کر اپنی گاڑیوں میں نامعلوم مقام پر لے گئے۔
محمد اسحاق کا کہنا ہے کہ 16 اپریل کو نبی داد بگٹی کو کوئٹہ کے علاقے بروری روڈ پر صبح چھ بجے چھوڑ دیا گیا لیکن ان کا بیٹا تاحال لاپتہ ہے۔ محمد اسحاق کے مطابق انھوں نے متعلقہ تھانے کے حکام کو ایف آئی آر درج کرنے کی درخواست دی ہے۔ یاد رہے کہ زیارت کراس کا علاقہ ضلع پشین کی تحصیل کاریزات میں آتا ہے۔
کاریزات میں انتظامیہ کے ایک سینیئر اہلکار نے اس بات کی تصدیق کی کہ اس سلسلے میں ایک درخواست آئی ہے تاہم ابھی تک انھوں نے ایف آئی آر درج نہیں کی ہے کیونکہ ابھی تک اس بات کا تعین ہونا باقی ہے کہ یہ واقعہ ان کے علاقے میں پیش آیا یا کسی اور علاقے میں۔
No comments:
Post a Comment